سرینگر//جموں و کشمیر کے سابق دہشت پسندوں کی پاکستانی خواتین( بیویوں )نے پیر کو ایک مرتبہ پھر اپنے بچوں کے ساتھ سرینگر میں احتجاجی مظاہرے کئے۔انہوں نے پلے کارڈ ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے جن پر ہمیں انصاف دو کے الفاظ درج تھے۔یہ احتجاج سرینگر کی پریس کالونی میں کیا گیا ہے۔انہوں نے ملک کے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ انہیں پاکستان واپس بھیجا جائے یا انہیں یہاں کی شہریت فراہم کی جائے۔اس دوران انہوں نے اپنے بچوں سمیت ہماری مانگے پوری کروجیسے نعرے بھی لگائے ہیں۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پچھلے کئی سالوں سے بارہا احتجاج درج کر رہے ہیں لیکن ہماری بات نہیں سنی جارہی ہے۔ ہم بے حد تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں بھارت سرکار اپنے شہری نہیں مانتے ہیں، اور ہم انہیں کہنا چاہتے ہیں کہ اگر آپکو شہریت دینے میں اعتراض ہے تو ہمیں واپس پاکستان بھیجا جائے، ان خواتین نے کہا ہے کہ ہمیں شادی کی ہوئے کسی کے دس سال یا کسی کے پندرہ سال بھی ہوئے ہیں، لیکن ہمیں اور ہمارے بچوں کو نا کوئی شہریت دی جاتی ہے اور نا ہمیں کسی قسم کا کوئی سفری دستاویزات دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ماں باپ بہن بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کا انتقال بھی پاکستان میں ہوا ہے لیکن ہم تب بھی نہیں جاسکے کیونکہ ہمارے پاس کوئی بھی دستاویزات نہیں ہیں،جبکہ ہم دستاویزات نا ہونے کی صورت میں اپنے بچوں کو بھی پڑھا نہیں سکتے ہیں، کیونکہ اسکول والے صاف انکار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں یہاں حکومت کی پالیسی کے تحت مدعو کیا گیا ہے ہمارا قصور کیا ہے اور ہمیں اذیت میں ڈالا گیا ہے۔ براہ مہربانی ہمیں پاکستان واپس بھیج دیں، ہمیں سفری دستاویزات دیں ،ہم اب ٹوٹ چکے ہیں، جبکہ کئی خواتین ایسی ہیں جن کا یہاں آکر طلاق ہوا ہے یا کچھ خواتین کے شوہر انتقال بھی کر چکے ہیں، جسکی وجہ سے ہم در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ایک خاتون نے کہا کہ ہم کب تک احتجاج کریں گے اور ہماری غلطی کیا ہے۔ اس نے کہا، ہم یہاں پنجرے میں بند ہیں، اور حکومت ہماری درخواستوں کا جواب نہیں دے رہی ہے۔واضح رہے سال 1990میں ہزاروں کشمیری نوجوان سرحد پار پاکستان اسلحہ کی تربیت حاصل کرنے کےلئے گئے تھے، جسکے بعد سیکڑوں نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے وہاں دہشت پسندی کا راستہ ترک کرکے مختلف قسم کے کام شروع کی اور وہاں کی لڑکیوں کے ساتھ شادیاں بھی کی تھیں۔اس دوران عمر عبداللہ کے دور حکومت میں سال 2010میں حکومت نے ایسے نوجوانوں کی بازآبادکاری کےلئے ایک اعلان کیا تھا، جسکے دوران سیکڑوں نوجوان اپنے بچوں اور بیویوں کو لے کر نیپال کے راستے سے کشمیر اپنے گھروں کو واپس آئے اور اس دوران سیکورٹی ایجنسیاں اور پولیس نے کچھ دیر کےلئے قانونی لوازمات پورے کرنے کےلئے انہیں پولیس حراست میں رکھا تھا، جسکے بعد ان سبھی نوجوانوں کو رہا کیا گیا اور وہ پھر سے اپنی زندگی بسانے کےلئے مختلف کاموں پر لگ گئے ہیں۔لیکن یہاں کی سرکار آج تک پچھلے دس یا دس سے زائد سال سے انکی عورتوں یا بچوں کو شہریت نہیں دے رہی ہے جسکی وجہ سے اب بار بار کے مظاہروں سے یہ خواتین ذہنی کوفت کی شکار ہو گئی ہیں۔