امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین نے ایغور مسلمانوں کے ساتھ سختی پر چین کے صوبے سنکیانگ سے درآمدات پر پابندی کے لیے قانون منظور کرلیا۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایوان نمائندگان میں ‘ایغور فورس لیبر پویونشن ایکٹ’ ایک ووٹ کے مقابلے میں 428 کی اکثریت سے منظور کرلیا، جس کے تحت چین سے درآمدات کرنے والے اداروں کو ثابت کرنا ہوگا کہ مذکورہ اشیا سنکیانگ میں جبری مزدوری کے ذریعے تیار نہیں کی گئی ہیں۔اسپیکر نینسی پلوسی نے ووٹنگ سے پہلے اراکین سے کہا تھا کہ اس وقت بینجنگ ایغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے خلاف جبر اور ان کو دبانے کی مہم میں تیزی لارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ اور پورے چین میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہورہی ہے، عوام کی نگرانی اور کارروائیاں کی جارہی ہیں، جس میں لوگوں پر تشدد، گرفتاریاں اور جبری طور پر نس بندی اور سچ کوسامنے لانے کی جرات کرنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دھمکانا شامل ہے۔نینسی پلوسی کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت کی جانب سے ہونے والی جبری مزدوری چین سے باہر پوری دنیا اور ہماری سرحدوں تک پہنچ گئی ہے۔امریکی سینیٹ نے اس سے قبل اسی طرح کے اقدامات کی منظوری دی تھی اور اب ان دونوں کو مزید قانونی شکل دینے کی ضرورت ہے۔اس بل کو اب دستخط کے لیے صدر جوبائیڈن کے پاس بھیج دیا جائے گا تاہم اس بل کے حوالے سے یہ بات واضح نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ایوان نمائندگان میں اس بل پر ووٹنگ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیجنگ میں شیڈول ونٹر اولمپکس 2022 کا سفارتی بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ہوئی ہے۔وائٹ ہاؤس نے بیجنگ ونٹراولپمکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ کی وجوہات یہ بتائیں کہ چین میں ایغور اقلیت کی نسل کشی کی جارہی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، جس پر چین سے سخت ردعمل آیا تھا۔قبل ازیں امریکی حکومت نے اس طرح کی پابندیاں چین کی مخصوص مصنوعات کی درآمد پر عائد کی تھیں، جس میں سولر پینل کی اشیا شامل تھی اور اس کی وجہ بھی ایغور کے ساتھ چینی حکومت کے اقدامات بتائے گئے تھے۔چین نے ان پابندیوں کو ‘غنڈہ گردی’ سے تعبیر کیا تھا، اس کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان میں 428 ووٹ کی حمایت سے قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہوگئی ہے۔اس سے قبل امریکار سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے چین کی ٹینس اسٹار پینگ شوائی کی سلامتی کے حوالے سے شکوک کا اظہار کیا تھا، جن کے حوالے سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے سینئر رہنما پر الزام تھا کہ انہوں نے ٹینس اسٹار کا جنسی استحصال کیا ہے۔چین میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ کم ازکم 10 لاکھ ایغور اور ترک زبان بولنے والے دیگر مسلمان اقلیتوں کو شمال مغربی خطے سنکیانگ میں مشقتی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔انسانی حقوق کے اداروں اور دیگر غیرملکی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، جبری مزدوری، سیاسی بنیاد پر دباؤ ڈالنے، تشدد اور جبری نس بندی کے ثبوت موجود ہیں۔امریکا نے ایغور کے حوالے سے چینی حکومت کے اقدامات کو ان کی نسل کشی قرار دیا ہے۔چین نے شروع میں سنکیانگ میں کیمپوں کی موجودگی سے انکار کے بعد ان کو ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قرار دے کر ان کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ انتہاپسندی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ نامی امریکی انسانی حقوق کے ادارے نے اپنے نئے پورٹل میں کہا کہ ان کے پاس 300 سے زائد ایغور اور دیگر مسلمان دانش وروں کی 2007 سے سنکیانگ میں گرفتاری کی رپورٹس ہیں۔دوسری جانب چین ایغور پر جبر اور تشدد سے متعلق الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے جبکہ ایوان نمائندگان کی جانب دے بیجنگ کے خلاف قانون کی منظوری پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔