نئی دہلی//بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کے صدر سوربھ گانگولی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہمیشہ گلابی گیند کی کرکٹ کی وکالت کی ہے۔ جب وہ 2016-17 میں ٹیکنیکل کمیٹی کے رکن تھے تو انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی گلابی گیند کے استعمال کی سفارش کی تھی۔ گانگولی نے اسی وقت ڈے نائٹ میچ کی وکالت کی تھی۔ گانگولی کا خیال ہے کہ ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ سے ٹیسٹ کرکٹ کو زیادہ سے زیادہ تماشائی ملیں گے۔ انہوں نے اب ہر ٹیسٹ سیریز میں گلابی گیند سے کم از کم ایک ٹیسٹ کھیلنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ بورڈ ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کو باقاعدہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ گانگولی نے کہا، “یہ مستقبل ہے۔خاص طور پر ٹیسٹ کرکٹ میں۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ یہ لوگوں کو ایک دن کے کام کے بعد کھیل میں واپس لاتا ہے، کیونکہ لوگوں کے پاس پانچ روزہ ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے اپنے روزمرہ کے کام سے وقت نہیں ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب کولکاتہ کے ایڈن گارڈنز میں ڈے نائٹ میچ ہوا تھا اورا سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آپ اس طرح آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں دیکھتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اسٹینڈز لوگوں سے بھرے ہوتیہیں۔ امید ہے کہ بھارت میں ہونے والے اگلے پنک بال ٹیسٹ میں اسٹینڈس لوگوں سے بھرے ہوں گے۔ میرے خیال میں بی سی سی آئی میں ہر کوئی ایسا ہی خیال کرتا ہے۔ایساہے پنک بال ٹیسٹ میں ٹیم انڈیا کا ریکارڈ وراٹ کوہلی کی قیادت میں ہندوستانی ٹیم نے اب تک تین ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلے ہیں جن میں سے اسے دو میں کامیابی اور ایک میں شکست ہوئی ہے۔ ٹیم نے اپنا پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ ایڈن گارڈن میں کھیلا، جہاں ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف اننگ اور 46 رن سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ گراؤنڈ میں اگلا ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلا اور یہاں شرمناک کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹیم پہلی اننگ میں صرف 36 رن پر آل آؤٹ ہوگئی۔ یہ ٹیسٹ میچ میں ٹیم کا اب تک کا سب سے کم اسکور بھی ہے۔ اس کے بعد ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف نریندر مودی اسٹیڈیم میں تیسرا ڈے نائٹ میچ کھیلا اور اسے 10 وکٹوں سے جیت لیا۔دریںاثنا یہ کبھی آسان نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ ویراٹ کپتانی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، جس کی وجہ سے ٹیم کے نئے کپتان کو کپتانی میں کچھ تکلیف ہوسکتی ہے۔ یہ انتہائی اہم کھلاڑی ہیں بغیر کسی شک کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ٹیم کے ماحول کی کامیابی جس پر ویراٹ کو فخر ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ یہاں سے کتنی پختگی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ہاں، ہم ایک دوسرے کے عزائم کا احترام کرتے ہیں، اب معاملہ اتنے تک ہے کہ اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ہم کتنے پختہ ہیں۔کوچ راہل دراوڑ ماضی میں بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچارہوچکےہیں جب بی سی سی آئی نے آخری بار ہندوستانی کپتان کو برطرف کیا تھا۔ تاہم اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔ٹیسٹ کپتانی ابھی بھی ویراٹ کے پاس ہے۔ ویراٹ کے پاس اب بھی شاندار ریکارڈ اور فٹنس ہے۔ کپتان ویراٹ نے ماضی میں ایک بلے باز کے طور پر روہت شرما کی بہت حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جبویراٹ ٹیم میں ایک بلے باز کے طور پر ہوں گے تو روہت بھی ان کی حمایت کریں گے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان تمام فارمیٹس میں ایک بے حد کامیاب ٹیم ہے، چاہے وہ ٹی 20 ورلڈ کپ سے سپر 12 میں باہرہوگئے ہوں۔ یہ بھی اہم ہے کہ روہت کوخاطرخواہ میچ اور وقت ملے تاکہ وہ 2023 کے ورلڈ کپ کے لیے ایک مضبوط ٹیم بنا سکیں، پھر بھی یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کو صحیح طریقے سے سنبھالنے کی ضرورت ہے اور دراوڑ، ویراٹ اور روہت اس پر قابو پا سکتے ہیں۔