سری نگر// وادی کشمیر میں بید کی لکڑی سے تیار کئے جانے والے کرکٹ بلے پہلی بار خواتین کرکٹ کھلاڑی بین الاقوامی سطح کے میچوں میں استعمال کر رہی ہیں جس سے بیٹ انڈسٹری سے وابستہ لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔جی آر 8 سپورٹس انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کشمیر کی سب سے بڑی بیٹ فیکٹری نے اعلان کیا کہ پاکستان کے خلاف کھیل رہی ویسٹ انڈیز کی قریب نصف درجن خواتین کھلاڑی اس فیکٹری کے بلے اور دیگر سامان استعمال کر رہی ہیں۔بتادیں کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے درمیان آج سے تین یک روزہ میچوں کی سیریز شروع ہو رہی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان 5 ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز بھی ہوں گی۔جی آر 8 سپورٹس کے منیجنگ ڈائریکٹر فوز الکبیر نے کہاہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ کشمیر کے بید کی لکڑی کے کرکٹ بلے پہلی بار بین الاقوامی سطح کی خواتین کرکٹ کھلاڑی استعمال کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا یہ کامیابی جی آر 8 اسپورٹس میں اے آئی پر مبنی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ کاریگوں کی انتھک محنت، مہارت اور دستکاری کا بین ثبوت ہے۔موصوف ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم ہمیشہ اعلیٰ معیار کا کرکٹ سامان تیار کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہاسال 2021 اور 2022 کے ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ ٹورنامنٹوں اور سال 2023 کے یک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ میں کشمیری بلوں کی شاندار کارکردگی کے نتیجے میں یہ سنگ میل حاصل کیا گیا۔انہوں نے کہاسال 2022 کے ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں ٹورنامنٹ کا سب سے لمبا چھکا جی آر 8 سپورٹس میں بنائے گئے بلے سے ہی لگایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ خواتین کھلاڑیوں کی طرف سے بین الاقوامی میچوں میں کشمیر میں تیار ہونے والے بید کی لکڑی کے بلوں کا استعمال ان کے معیاری ہونے کی دلیل ہے اور اس بات کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ کشمیر کے بلے باقی نگلش بلوں کے مقابلے میں وزن کے لحاظ بھاری ہیں یا معیار کے اعتبار سے کمتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے کاریگروں نے انتھک محنت سے نہ صرف کرکٹ بلوں کا وزن کم کیا ہے بلکہ ان کے سٹروک کے معیار کو بھی بڑھا دیا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘کشمیر کی بید کی لکڑی کے پیشہ ورانہ کرکٹ بیٹ بنانے میں انہیں 14 سال لگ گئے۔کبیر نے کہا کہ ہمارے کاریگوں کی انتھک محنت اور مسلسل کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بلوں کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔انہوں نے کہاآخر کار ہم ایک ایسا بیٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا تعلق ہماری مقامی صنعت سے ہے اور جس میں پوری صنعت کو مزید فروغ دینے کی گنجائش ہے’۔ان کا کہنا تھا: ‘اب ہم انگلش بید کی در آمد پر منحصر نہیں ہیں بلکہ ہم اس معاملے میں خود کفیل ہوئے ہیں۔