نئی دہلی//) سپریم کورٹ نے منگل کو تعزیرات ہند کے تحت بغاوت کے قانون کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو غور کے لیے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو بھیج دیا چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے اس کے ساتھ ہی نئے مجوزہ تعزیرات کوڈ میں غداری کے التزام میں ترمیم کرنے والے نئے قانون کے نفاذ تک کیس کی تحقیقات ملتوی کرنے کی مرکز کی درخواست کوبھی مسترد کردیا۔
مرکزی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت عظمیٰ کی اس بنچ کے سامنے کہا کہ نئے مجوزہ تعزیرات کوڈ میں غداری کے التزام میں ترمیم کی گئی ہے۔ مجوزہ قانون فی الحال پارلیمانی قائمہ کمیٹی کے سامنے زیر غور ہے۔
دریں اثنا، سینئر وکیل کپل سبل اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری سمیت دیگر نے بنچ کو بتایا کہ نیا قانون بننے سے آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کی آئینی حیثیت کا چیلنج ختم نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئے قانون کو سابقہ اثر سے لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت عظمیٰ نے 124اے کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت ملتوی کرنے کی مرکز کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا۔
بنچ نے کہا، "اس کی کئی وجوہات ہیں – دفعہ 124اے قانون کی کتاب پر باقی ہے اور تعزیری قانون میں نئے قانون کا صرف ایک ممکنہ اثر ہوگا اور استغاثہ کی درستگی 124اے تک برقرار رہے گی اور چیلنج کی تشخیص اس طرح کی جانی چاہیے۔
مسٹر سبل نے کہا کہ کیدارناتھ سنگھ کیس (پانچ ججوں کی آئینی بنچ کا فیصلہ جس نے التزام کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا تھا) پر دوبارہ غور کرنے کے لئے اس معاملے کو پانچ ججوں کی بنچ کے پاس بھیجا جا سکتا ہے یا تین ججوں کی موجودہ بنچ ہی اس پر فیصلہ کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیا قانون بہت برا ہے۔ اس کے رہتے مقدمہ چلتا رہے گا۔
بنچ نے کہا کہ اسے پانچ ججوں کی بنچ تشکیل دینا ہو گی، کیونکہ پانچ ججوں کی بنچ کا فیصلہ اس پر پابند ہے۔
سپریم کورٹ کے 11 مئی 2022 کے حکم کی وجہ سے بغاوت کا قانون فی الحال معطل ہے۔