جموں//آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا ( اے بی ۔ پی ایم جے اے وائی ) اسکیم بہت سے غریب خاندانوں کیلئے امید کی کرن بن کر ابھری ہے جو ملک کے معروف طبی اداروں میں صحت کے علاج کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ ایسے ہی26 سالہ ایک شخص پنکج کمار ہیں جو بچپن سے ہی گاؤں والوں کے کھیتوں میں کام کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں ۔ گذشتہ موسم بہار میں وہ اپنے گھر میں اپنے صحن کی دیوار کی مرمت کا کام کر رہا تھا ، جب وپ پھسل گیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ مسٹر کمار نے کہا کہ اس واقعے کے بعد میں اپنے بوڑھے والدین کے بارے میں زیادہ فکر مند تھا اب انہیں کون کھلائے گا ۔ مسٹر کمار نے مزید کہا ’’ ڈاکٹروں نے میرے خاندان سے کہا کہ وہ میری ٹانگ کی سرجری کیلئے مالی امداد کا بندوبست کریں ۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے پاس کوئی بچت نہیں ہے جسے ہم اپنے علاج کیلئے ادا کر سکیں ‘‘۔ علاج کے اخراجات کے بارے میں مسلسل سوچنے کے بعد جب اے بی ۔ پی ایم جے اے وائی اسکیم کمار کو بچانے کیلئے آئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ایک پڑوسی نے انہیں اے بی ۔ پی ایم جے اے وائی اسکیم کے بارے میں مطلع کیا اور اس کے بعد ہم نے کئی رشتہ داروں سے اس اسکیم کے بارے میں دریافت کیا ۔ مسٹر کمار نے کہا ’’ تمام رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد میرے نام پر گولڈن کارڈ جاری کیا گیا ۔ میرے علاقے کے ایک ڈاکٹر نے ہمیں جدید علاج کیلئے جموں کے سپر اسپیشلٹی ہسپتال جانے کا مشورہ دیا ۔ ہم نے ہسپتال کا دورہ کیا اور طبی اخراجات کی مکمل ادائیگی حاصل کی ۔ مسٹر کمار مرکزی اور جموں و کشمیر حکومت کے شکر گذر ہیں جنہوں نے اس اسکیم کے ذریعے اسے دوبارہ چلنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے میں مدد کی ۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ ضروری فلاحی اقدام فراہم کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ صحت اسکیم کو اے بی ۔ پی ایم جے اے وائی کے ساتھ مل کر شروع کیا گیا تھا ۔ اسکیم کی اہمیت کا اندازہ ان لوگوں سے لگایا جا سکتا ہے جو ماضی میں ناقابلِ برداشت علاج کے اخراجات کی وجہ سے نقصان اٹھا چکے ہیں ۔ مرکزی حکومت کے تعاون سے جموں و کشمیر حکومت کی کوششوں نے معاشرے کے تمام طبقوں کو مدد فراہم کرنے میں ایک قابلِ ستائش کام کیا ہے ۔ جموں و کشمیر آبادی کے لحاظ سے بہت سے نقصانات اور بہت سے ناقابلِ رسائی علاقوں کے ساتھ آخری میل تک پہنچنے کیلئے اختراعی طریقے وضع کئے ہیں ۔ صحت اسکیم فہرست میں شامل ہسپتالوں کے تمام رہائشیوں کو فی خاندان 5 لاکھ روپے کا ہیلتھ انشورنس کوور فراہم کرتی ہے ۔ اس اسکیم میں ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے کے تین دن اور ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد کے پندرہ دنوں کے اخراجات بشمول تشخیص اور ادویات شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ ہیلتھ ایجنسی ( ایس ایچ اے ) نے ایک پہل ’ گاؤں گاؤں آیوشمان ‘ شروع کی تا کہ آخری میل کے ان دیہاتوں تک رسائی حاصل کی جا سکے جو موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے باقی دُنیا سے کٹے ہوئے ہیں تا کہ اسکیم کے فوائد کو ہر فائدہ اٹھانے والے تک پہنچایا جائے ۔ اسکیم کے تحت تمام اہل مستفدین کی پریشانی سے پاک رجسٹریشن کو یقینی بنانے کیلئے ایس ایچ اے نے 8000 سے زیادہ کامن سروس سنٹرز ( سی ایس سیز ) کا نیٹ ورک قائم کیا ۔ پی آر آئی کے نمائندوں اور آشا کارکنوں کے ساتھ مل کر نچلی سطح پر صد فیصد رجسٹریشن اور بیداری کی سرگرمیوں کو یقینی بنانے کیلئے ورچوئل لرننگ ماحول ( وی ایل ای ) گاؤں میں لگایا جا رہا ہے ۔ ایس ایچ اے نے تربیت دی اور ان سی ایس سیز کی ہینڈ ہولڈنگ بھی کی ۔ راجوری کے دور افتادہ کنڈی بلاک میں حکام نے اے بی ۔ پی ایم جے اے وائی صحت اسکیم کے تحت گولڈن کارڈ کیلئے مقامی لوگوں کو رجسٹر کرنے کیلئے 6 گھنٹے کا سفر کیا ۔ اس سے حکومت کی اس بات کو یقینی بنانے کے عزم کا پتہ چلتا ہے کہ یہ اسکیم پوری آبادی کی زیادہ سے زیادہ بھلائی کیلئے ایک تحریک بن جائے ۔ راجوری کے ایک مقامی رہائشی عبدالرزاق خان نے کہا ’’ یہ ایک بہت اچھی اسکیم ہے ، اس جگہ علاج کی کوئی سہولت نہیں تھی ، یہاں کے لوگ غریب ہیں اور مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ اس اسکیم سے اب غریب بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں اچھا علاج حاصل کر سکتے ہیں ۔‘‘ یاری پورہ کے گاؤں میں جب گذشتہ مارچ کی رات کے 11 بج رہے تھے عبدالجید غنی کو سینے میں شدید درد ہوا ۔ ہر گذرتے لمحے کے ساتھ درد اس کیلئے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا ۔ مسٹر غنی کو یاری پورہ میں پی ایچ سی لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں ضلع ہسپتال اننت ناگ جانے کا مشورہ دیا وہاں سے انہیں سپر سپیشلٹی ہسپتال شیرین باغ سرینگر ریفر کیا گیا ۔ جب مسٹر غنی سرینگر کے ہسپتال پہنچے تو ان کی حالت مزید بگڑ گئی ، ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے انہیں دل کی بیماری کی تشخیص کی ۔ غنی کے اہل خانہ کو بتایا گیا کہ سرجری پر ایک لاکھ روپے خرچ ہوں گے اور اسے فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاندان کیلئے اصل آزمائش اس وقت شروع ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کیلئے غنی کے علاج کیلئے اتنی بڑی رقم برداشت کرنا ناممکن ہے جس کی اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان ہے ۔ یہ مطلوبہ رقم کے بغیر موت کے خلاف زندگی کی دوڑ تھی ۔ مسٹر غنی کے بھائی عبدالحمید یاد کرتے ہیں ’’ ہم نے بے بس محسوس کیا ۔ انسانی بنیادوں پر ہسپتال کے حکام نے گولڈن کارڈ کا بندوبست کرنے میں ہماری مدد کی ۔ ‘‘ اسکیم کے تحت ان کے علاج کیلئے فنڈز ملنے پر ان کے چہرے چمک اٹھے ۔ مسٹر غنی نے یاری پورہ میں اپنی دکان پر کہا ’’ میں ہمیشہ ہسپتال انتظامیہ کا مقروض رہوں گا جس نے مجھے اسکیم اور مرکزی حکومت کے بارے میں بتایا جس نے غریبوں کیلئے اس اسکیم کو وضع کیا ہے ۔ ‘‘ حال ہی میں لفٹینٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ حکومت سب کیلئے بہترین صحت کی دیکھ بھال کے مقصد کیلئے پُر عزم ہے ۔ لفٹینٹ گورنر نے کہا ’’ جموں و کشمیر حکومت سب کیلئے صحت کے ہدف کیلئے پُر عزم ہے ۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کیلئے پُر عزم ہیں کہ مختلف اضلاع میں صحت کی نئی سہولیات سماجی مساوات کو فروغ دیں اور اس کے فوائد دور دراز علاقوں میں رہنے والے ہمارے بھائیوں اور بہنوں تک پہنچیں ۔ ‘‘ مسٹر سنہا نے کہا ’’ اس سے پہلے چند مراعات یافتہ لوگ بڑے شہروں اور بیرون ملک طبی دیکھ بھال کی سہولت حاصل کرتے تھے جبکہ آبادی کی اکثریت کی صحت کی عام سہولیات تک رسائی حاصل نہیں تھی ۔ صحت عامہ کے عزم کے ساتھ ہم نے سب کیلئے اعلیٰ معیار کی صحت کی دیکھ بھال کو یقینی بنایا ۔ ‘‘