سری نگر// ڈیموکریٹک آزاد پارٹی (ڈی اے پی) کے چیئر مین غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگ پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اس فیصلے کو چند برسوں کے لئے موقوف کرے۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگوں کے پاس کھانا کھانے کے لئے پیسے نہیں ہیں تو وہ ٹیکس کیسے ادا کریں گے۔موصوف چیئرمین نے ان باتوں کا اظہار جمعرات کو جنوبی کشمیر کے اننت ناگ میں نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دینے کے دوران کیا۔انہوں نے کہا: ’ٹیکس دینے میں ہمارے لوگوں کو کوئی دقت نہیں ہے لیکن آمدنی بھی ہونی چاہئے ہمارے لوگوں میں ابھی یہ ٹیکس دینے کی سکت نہیں ہے‘۔ان کا کہنا تھا: ’لوگوں کے پاس ابھی کھانا کھانے کے لئے پیسے نہیں ہیں تو وہ ٹیکس کیسے ادا کریں گے‘۔مسٹر آزاد نے کہا کہ سرکار سے میری یہی اپیل ہے کہ وہ اس ٹیکس کو چار پانچ برسوں تک روکے جب تک یہاں لوگوں کے اقتصادی حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب یہاں سیاحت، باغبانی، ہینڈی کرافٹس کے شعبے ٹھیک ہوں گے تب لوگ ٹیکس دینے کے لائق ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سرکا کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرے اور دفتروں میں بیٹھ کر نہیں بلکہ عوام کے ساتھ مل کر پالسیاں بنائے۔انسداد تجاوزات مہم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’انسداد تجاوزات مہم پر روک لگنی چاہئے تھی‘۔انہوں نے کہاکہ پچھلے تیس برسوں کے نامساعد حالات کی وجہ سے جموں وکشمیر میں اقتصادی صورتحال کافی خراب ہوئی۔ اُن کے مطابق ملی ٹینسی کی وجہ سے یہاں پر لوگوں کو گونا گوں مصائب ومشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ غلام نبی آزاد نے کہاکہ جموں وکشمیر میں اس وقت بے روزگاری نے سنگین رخ اختیا رکیا ہوا ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملی ٹینسی کی وجہ سے جموں وکشمیر کا ہر شعبہ متاثر ہوا اور لکھن پور سے لے کر ٹنگڈار تک کوئی ہر ایک کو حالات نے متاثر کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی اور اُس کے بعد کووڈ صورتحال کے باعث جموں وکشمیر کے لوگوں کو اقتصادی طورپر سب سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا اور اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کے لوگ پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کے متحمل ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے پاس اس وقت کھانے پینے کی خاطر پیسے نہیں تو وہ ٹیکس کہاں سے ادا کریں گے۔ غلام نبی آزاد نے کہاکہ جموں وکشمیر انتظامیہ کو لوگوں کے زخموں پر مرہم کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ دفاتروں میں بیٹھ کر عوام مخالف آرڈر پاس کرکے یہاں کے لوگوں کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کیا جاسکے۔