سری نگر// پلاسٹک اور دوسرے دھاتوں کے بنے مختلف ڈئزانوں کے برتنوں کی بارزاوں میں بہتات ہونے کے باوصف وادی کشمیر میں تانبے کے برتنوں اور دیگر زیبائشی سامان کے استعمال کا رواج برابر جاری ہے۔موجودہ سائنسی دور میں بھی وادی میں جہاں یہ صنعت متعدد لوگوں کے لئے ذریعہ معاش ہے وہیں یہ جموں وکشمیر کی معیشت کے استحکام کے لئے بھی ایک اہم رول ادا کر رہی ہے۔سری نگر کے خانقاہ علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد اسلم بٹ نامی ایک مس گر گذشتہ تین دہائیوں سے اسی پیشے سے نہ صرف وابستہ ہیں بلکہ اس کی پرانی روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق نئی چیزیں بھی تیارکر رہے ہیں تاکہ یہ کرافٹ زندہ رہ سکے۔انہوں نے یو این آئی کے ساتھ اپنی مختصر گفتگو کے دوران بتایا کہ تانبے کے برتن ارو دیگر چیزیں بنانے کے کرافٹ کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ان کا کہنا تھا: ’میں روایتی چیزوں کو بنا کر زندہ رکھ رہا ہوں اور ان میں بھی نئی تبدیلیاں کرکے ان کو زیادہ سے زیادہ دلکش بنانے کی بھی کوشش کر تا ہوں‘۔موصوف کاریگر نے کہا کہ اس کرافٹ کو زندہ رکھنے کے لئے تانبے کے دھات کی نئی چیزیں بنانے کی ضرورت ہے جن کی مارکیٹ میں مانگ ہو اور جو زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوں۔انہوں نے کہا: ’میں نے آج تک قریب سو نئی چیزیں بنائی ہیں جن میں موبائل کے ڈبے، کلاک، میز، کرسیاں، سائیکل اور دیگر زیبائشی ساز و سامان شامل ہے‘۔ان کا کہنا تھا: ’میں ایسی نئی چیزیں بناتا ہوں کہ جو نہ صرف گھر میں زیبائش کے لئے رکھی جاتی ہیں بلکہ جو کار آمد بھی ثابت ہوتی ہیں‘۔محمد اسلم نے کہا کہ میرے والدین یہی کام کرتے تھے میں نے بھی اسی پیشے کو چن لیا اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس میں چار چاند لگانے کے عمل میں محو جدو جہد ہوں۔انہوں نے کہا: ’میری آرزو ہے کہ یہ کرافٹ بھی نہ صرف زندہ رہے بلکہ وادی کی دستکاریوں کے افق پر ماہتاب کی طرح روشن ہوجائے‘۔ان کا کہنا تھا کہ اس کرافٹ کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کاریگر تانبے کی نئی نئی چیزیں تیار کریں اور نوجوان نسل کو بھی یہ ہنر سکھائیں۔موصوف مس گر کا ماننا ہے کہ بازار میں تانبے کی نئی چیزیں آنے سے ان کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی وساطت سے میری چیزیں ملک بھر میں مشہور ہو رہی ہیں اور مختلف ریاستوں کے خریدار مجھ سے چیزیں خرید رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج خریدار کو دکان پر آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے آن لائن شاپنگ ہو رہی ہے۔اسلم بٹ کا کہنا ہے کہ مانگ میں کوئی کمی نہیں ہے صرف اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے جتنی زیادہ محنت کی جائے گی پھل بھی اتنا ملے گا۔ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ محکمہ پہلے میری رجسٹریشن کرانے میں لیت لعل کر رہا تھا لیکن جب میرے کام کو ساشل میڈیا پر سراہا جانے لگا تو محکمہ بھی میری طرف متوجہ ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ یہ پیشہ ہمارے لئے ذریعہ معاش ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے ابا و اجداد کا ایک تحفہ بھی ہے جس کو تحفظ فراہم کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔تنابے کے برتنوں کے استعمال کی تاریخ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح وادی کشمیر میں بھی کافی پرانی پے۔بعض مورخین کا ماننا ہے کہ یہاں گذشتہ سات سو برسوں سے تانبے کی دھات کے برتنوں کا رواج ہے۔تانبے کے برتن نہ صرف ساخت کے لحاظ سے دلپذیر ہیں بلکہ ان کا استعمال صحت کے لئے بھی فائدہ بخش ہے۔ماہرین کے مطابق تانبے کے برتنوں میں پکایا جانے والا کھانا یا ان میں رکھا جانے والا پانی کئی امراض سے دور رکھتا ہے۔