این بی ایچ ایم کا مقصد دیہی علاقوں میں مگس بانی کے ذریعے خود کفیل روزگار کے مواقع کو فروغ دینا ہے
سری نگر//جموںوکشمیر میں مگس بانی کے منصوبے مقامی بے روزگار نوجوانوں میں نئے کاروبار کی ایک نوید لے کر آیا ہے۔ جموںوکشمیر کے مختلف علاقوں میں بنی شہد کی مکھیوں کی کالونیوں کی وجہ سے جموں و کشمیر میں بہت سے لوگ جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، روزی روٹی کمانے کے قابل ہیں۔وقت کا تقاضا ہے ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان مرد اور خواتین مگس بانی کی طرف مائل ہو رہے ہیں کیوں کہ درجنوں مقامی شہد برانڈس نے مارکیٹوں میں اَچھی شہر ت حاصل کی ہے۔شہد پروسسنگ یونٹوں جو شہر کی مکھیوں کی ترقی کی سکیم کے تحت قائم کئے گئے ہیں ، مگس بانی والوں کی مدد کرنے میں ایک طویل سفر طے کریں گے کیوں کہ محکمہ کسانوں کے ذریعے تیار کردہ خام شہد کی مفت پروسسنگ میں سہولیت فراہم کر رہا ہے ۔ مگس بانی والوں کو ایک ’لوگو‘اور شہد کی کامیاب مارکیٹنگ کے لئے معاوضہ کی واپسی کے لئے جانچ بھی فراہم کی جاتی ہے۔شہد پروسسنگ یونٹس خود کار شہد پروسسنگ پلانٹ ، نمی کو کم کرنے والے یونٹ ، سٹوریج چیمبر اور بوٹلنگ یونٹ پر مشتمل ہیں۔ یہ کثیر افعال بشمول پہلے سے گرم کرنا، پروسسنگ ، نمی میں کمی ، فلٹریشن اور شہد کی بوتل اَنجام دیتا ہے۔یہ بات قابلِ ذِکر ہے کہ محکمہ موسم خزاں کے رام بن ضلع میں سفید شہد کو ’’ وَن ڈسٹرکٹ وَن پروڈکٹ ‘‘ کے تحت فروغ دے رہا ہے جو اَپنے بہترین معیار ،رنگ اور ذائقے کے لئے جانا جاتا ہے ۔شہد کی مکھیاں پالنا مربوط کاشت کاری کا ممکنہ حصہ بنتا ہے او رایک غیر مسابقتی غیر فارمی سرگرمی ہونے کے ناطے کسان کی آمدنی کو دوگنا کرنے میں اہم کردار اَدا کرسکتا ہے ۔ وسیع زرعی موسمیاتی تنوع کی وجہ سے اِس میں روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہے جو سا ل بھر شہدکی مکھیوں کے پودوں کی دستیابی کو قابل بناتا ہے۔واضح رہے کہ نیشنل بی کیپنگ اینڈ ہنی مشن( این بی ایچ ایم ) کا مقصد شہد کی مکھیوں کے پالنے کو فروغ دینا او ردیہی ہندوستا ن میں کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں کے درمیان خود کفیل روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔ پروگرام کے تحت مستفید ہونے والوں کو شہد کی مکھیوں کے بکسز ، زندہ مکھیوں کی کالونیاں ، ٹول کٹس اور تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ضلع شوپیاں کے اَگلر گائوں کے رہنے والے وسیم رفیق بٹ نے ان کے منصوبے میں محکمہ زراعت کی جانب سے فعال تعاون حاصل کیا گیا۔ وہ اِس وقت مکھیوں کی تقریباً1,000کالونیوں کا مالک ہے ۔اُنہوں نے اَپنے لئے ایک دیرپا روزی روٹی کو یقینی بنانے اَپنے گائوں کے زائد اَز 10 نوجوانوں کو شہد مگس بانی میں مصروف کیا جن کی اَپنی کالونیاں ہیں۔اِسی طرح ایک اور مگس پالن فاروق احمد شیخ جو کپواڑہ سے تعلق رکھتے ہیں ، نے بتایا کہ وہ ہندواڑہ میں اَپنے گھر کے پچھواڑے میں قائم اَپنے 100 مکھیوں سے سال میں تین سے چار بار شہد حاصل کرتے ہیں ۔اُنہوں نے کہا ،’’ میں دوفصلیں کشمیر میں اور دوسری جموں میں حاصل کرتا ہوں اور اَپنے کنبے کے لئے کافی کماتا ہوں ۔ اگر چہ بعض اَوقات موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی اَموات نقصان کا باعث بنتی ہیں لیکن اکثر اَوقات میں اَچھا منافع کماتا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کا نیکٹر جنگلات میں موجود نامیاتی نباتات سے حاصل ہوتا ہے اور خالص شہد کی مانگ روزانہ کی بنیاد پر بہت زیادہ بڑھ رہی ہے ۔