سرینگر//ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح ریاست جموں کشمیر میں بھی خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور معصوم افراد اپنی قیمتی جانوں کو ضائع کر رہے ہیں۔ جو ذی حس طبقہ کیلئے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔ ریاست میں جہاں نامسائد حالات کے دوران تشدد آمیز واقعات نے شہریوں کی جان لی وہی خود کشی کے واقعات میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوا۔ وادی کے شمال و جنوب میں گزشتہ برس سینکڑوںایسے واقعات منظر عام پر آئے جب لوگوں نے از خود موت کو گلے لگانے کی کوشش کی جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی تھی۔ادھر ماہرین نفسایات کا ماننا ہے کہ ناقص معاشی حالات اور پر تنائو زندگی خو کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی اصل محرکات ہیں۔اس سلسلے میں معروف ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی اصل ذمہ دار وہ حالات ہیں جن سے ایک انسان مقابلہ کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ جان سب کو عزیز ہوتی ہیں اور کوئی بھی شخص اس کو ختم نہیں کرنا چاہتا ہیں تاہم کچھ اوقات میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو لگتا ہیں کہ وہ ان حالات کے سامنے بے بس ہیں۔ ذہنی تنائو اورپر آشوب ماحول خود کشی کی ایک اور وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں مقابلوں کے پیچھے اندھی ڈوڑ اور سماج سے دوری بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ برس قبل اگر کسی شخص کو کوئی گھریلوں یا ذاتی مسئلہ ہوتا تھا تو وہ اپنے دوستوں،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ وہ مسئلہ بیان کرتا تھا اور اسے کئی مرتبہ اس مشکل سے باہر نکلنے کی راہ بھی ملتی تھی اور اس کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا تھا تاہم اب انفرادی زندگی اور سماج کی دوری سے یہ معاملات ایک شخص کے دل میں ہی پیوست ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دل برجستہ ہوتا ہیں اور وہ حرکت کر بیٹھتا ہیں۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر حمید اللہ کا مزید ماننا ہیں کہ خواتین میں سب سے زیادہ خود کشی کے رجحانات اس لئے سامنے آتے ہیں کیونکہ صنف نازک زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اور ماحول و حالات کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کمزور ہوتی ہیں۔ادھر سیول سوسائٹی کا نظریہ ہے کہ اخلاقی گراوٹ اور دیکھا دیکھی کی وجہ سے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہیں۔سی این آئی کے مطابق اس سلسلے میں معروف سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ بے راہ راوی اور بچوں پر والدین کے کنٹرول میں کمی کی وجہ سے خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ30برسوں سے ریاست خاص طور پر وادی میں جو مادہ پرستی کا رجحان بڑا ہیں وہ بھی ایک بڑی وجہ ہیں کہ لوگ موت کو گلے لگا رہے ہیں۔سماجی کارکن کا ماننا ہیں کہ وحشت اور دہشت کی وجہ سے لوگ سماج سے کٹے رہتے ہیں اور اخلاقیات میں گراوٹ اور ذہنی دبائو کی وجہ سے سماج کا تانا بانا بکھر گیا ہیں جبکہ شورش کی وجہ سے صبر کا پیمانہ بھی لوگوں میں ختم ہو رہا ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دور جدید کی چکا چوند زندگی کی وجہ سے دیکھا دیکھی شروع ہوئی ہیں جبکہ مغربیت کے رجحان کی وجہ سے سماج کا مزاج بھی مندومل ہوا ہے اور خود کشی کے واقعات جو سامنے آرہے ہیں اس کے اصل محرکات بھی ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ سماجی نا انصافی،سیاسی کورپشن،بد عنوانی اور مقابلوں کی دوڑ کی وجہ سے لوگ ذہنی تناو کے شکار ہو رہے ہیں اور اسکا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بے شمار زر کثیر بھی وادی میں آگیا جس کی وجہ سے دولت کے انبار کھڑے ہوئے اور بے راہ راوی اور دیکھا دیکھی نے جنم لیا جبکہ مغربیت کی ہوا کھڑی ہوئی ہیں اور وہ جدیدت کے شکار ہو رہی ہیں۔سماج میں اگر چہ اب جبکہ خوکشیاں ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے تو اس دو میں والدین پر فرضی ہے کہ وہ اپنے بچوںکو اخلاقیات کی تعلیم دیں جبکہ کاص طور پر علمائے کرام اور مذہبی لیڈران بھی بری الاذمہ نہیں ہے کیونکہ اس ناسور کو ختم کرنے کیلئے وہ اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ معروف عالم دین کا ماننا ہے کہ دین سے دوری اور اخلاقی اقدار میں تنزل کی وجہ سے خود کشیوں کے گراف میں اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اہل خانہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں اور دیگر اہل و عیال کو مایسی کا شکار نہ ہونے دے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیاوی تعلیم ٹھیک ہے تاہم اپنے اہل و عیال کو قرانی اور دینی تعلیم سے اگر آراستہ کیا جائے تو از کود یہ سلسلہ رک سکتا ہے کیونکہ قران روح کی غذا ہے اور روح کو بہتر سکون فرہم کرتی ہے۔ خواتین میں مذہبی تعلیم کا فقدان بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنی عظمت اور مقام کی پہچان بھی نہیں ہوتی اور وہ ہڑ بڑاہٹ میں راست اقدامات بھی اٹھاتی ہے جن میں خود کشی بھی ایک ہے۔ادھر اس سلسلے ماہرین کا ماننا ہے کہ خواتین میں خواہشات کا دائرہ مردوں کے مقابلے میں بڑا ہوتا ہے اور جب انکی خواہشات کی تکمیل نہیں ہوتی تو وہ مشتعل ہوجاتی ہے اور خود کشی بھی مشتعل ہونے کی ایک کڑی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قوت برداشت میں کمی اور دیکھا دیکھی کے علاوہ مادہ پرستی کے رجحان میں اضافہ کئی ایک محرکات میں سے ایک ہیجو خواتین کو اپنی زندگیوں کا چراغ غل کرنے کیلئے اکساتی ہے۔