امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے یوکرینی ہم منصب ولادمیر زیلنسکی کو بتایا ہے کہ اگر روس نے اس کے مغربی پڑوسی ملک پر جارحیت کی کوشش کی تو واشنگٹن اور اس کے اتحادی روس کو بھرپور فیصلہ کن جواب دیں گے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکا اور یوکرین کے صدور کے درمیان ڈیلیفونک کال سے متعلق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں پریس سیکریٹری جین پساکی کا کہنا تھا کہ امریکی رہنما نے 9 اور 10 جنوری کو جنیوا میں امریکا اور روسی حکام کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے امریکی اور روسی حکام کے مذاکرات سمیت اپنی سفارتی کوششوں اور تعاون کا یقین دلایا۔پساکی نے ایک بیان میں کہاکہ صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین پر مزید جارحیت کی تو امریکا اور اس کے اتحادی فیصلہ کن اور بھرپور جواب دیں گے۔سیکریٹری اسٹیٹ نے مزید کہا کہ بات چیت کے دوران صدر بائیڈن نے ایک بار پھر یوکرین کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی حفاظت سے متعلق امریکی عزم کا اعادہ کیا۔یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادمیر پیوٹن کو خبردار کیا تھا کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔امریکا نے مزید پابندیاں لگانے کا بھی عندیا دیا تھا لیکن روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ اگر امریکا نے نئی پابندیاں عائد کیں تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔روس کی جانب سے جمع کرائے گئے سیکیورٹی دستاویزات کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ نیٹو یوکرین اور سابق سوویت یونین کے دیگر ممالک کو رکنیت دینے سے انکار کرے اور وسط اور مشرقی یورپ میں تعینات افواج واپس بلا لے۔امریکا اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ کسی بھی اہل ملک کے لیے رکنیت کھلی ہے اور روس کو یوکرین کے حوالے سے اس قسم کی ضمانتیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔ماسکو کی طرف سے جمع کرائے گئے سیکیورٹی مسودے میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا پیوٹن اس لیے غیر حقیقی مطالبات کر رہے ہیں تاکہ ان کے مسترد ہونے کی صورت میں انہیں حملہ کرنے کا جواز مل سکے۔یاد رہے کہ 2014 میں روس نے یوکرین کا حصہ تصور کیے جانے والے بحیرہ اسود کے جزیرہ نما علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا جس کے بعد مغربی دنیا نے روس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔واضح رہے کہ ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہنے والا یوکرین دراصل نیٹو کا رکن تو نہیں لیکن نیٹو نے اس کی خودمختاری کے تحفظ کا ہمیشہ عزم ظاہر کیا ہے۔2014 میں روس کی جانب سے کریمیا کو اپنے ملک کا حصہ بنانے اور روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کی طرف سے مشرقی یوکرین میں ایک علاقے پر قبضے کے بعد سے یوکرین کا مغربی ممالک کی طرف جھکاؤ بڑھتا رہا ہے اور اس دن سے یہ تنازع بدستور جاری ہے۔