سینئر امارتی عہدیدار نے مضبوط دفاع کا عزم کرتےہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے لیے یمن کے باغیوں کا حملہ ’نیا‘ نہیں ہوگا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل کے 2 حملے کیے تھے جس میں تین ملازمین ہلاک ہوئے تھے، پہلا حملہ 17 جنوری کو کیا گیا تھا جبکہ دوسرا حملہ ان کی دفاعی فوج نے روک لیا تھا۔شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کے لیے یہ کچھ نیا نہیں ہونے جارہا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ’ ہم حوثی دہشت گردی کے خطرے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جو ہمارے لوگوں اور ان کے زندگی کے جینے کے طریقے کو ہدف بناتے ہیں‘۔یو اے ای کے مضبوط اتحادی امریکا نے ’میزائل یا ڈرون حملے کے خطرات‘ کے پیش نظر اپنے شہریوں کو امارات میں سفر کرنے کےفیصلے پر نظر ثانی کرنے کےلیےکہا ہے۔تاہم یو اے ای حکام اپنے اس مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ خلیجی ملک ’اپنے دفاع کےلیے تیار ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہم اب بھی دنیا کے محفوظ ممالک میں سے ایک ہیں اور حال ہی میں ہونے والے حملے نے ہمیں اپنے شہریوں کی حفاظت اور فلاح کے لیے مضبوط کیا ہے‘۔دریں اثنا، یو اے ای کی معیشت تیل کی برآمدات پر انحصار کرتی ہے، جبکہ انکی آمدنی کا دوسرا ذریعہ سیاحت اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔ان کی ایک کروڑ آبادی میں 90 فیصد حصہ غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔یمن کے باغی نے اکثر سعودی عرب کو ہدف بناتے ہوئے ان کے شہریوں کو ہلاک اور زخمی کیا اور تیل کے ذخیروں اور ائیرپورٹ کے انفرااسٹریکچر کا تباہ کیا ہے۔امارات نے حوثیوں کے خلاف یمن کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کی حمایت کے لیے سعودی قیادت میں اتحادی فوج بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔2019 میں یو اے ای نے یمن سے اپنی فوج ہٹالی تھی، تاہم پھر بھی وہ ایک با اثر شراکتدار ہے۔باغیوں کے مسلسل حملوں نے یو اے ای کے اربوں ڈالرز کے دفاعی نظام کو کار ضرب لگائی ہے۔باغیوں نے یو اے ای پر مزید حملے کرنے کی تنبیہ کی ہے، یو اے ای امریکی فوجیوں کی میزبانی کرتا ہے اور دنیا میں ان کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’یو اے ای کے پاس دنیا کی بہترین دفاعی صلاحیت موجود ہے اور اسے مزید جدید کرنے کی کوشش مسلسل جاری ہے‘۔سالانہ تجدید کے لیے یو اے ای اپنے بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ جدید نظام حاصل کرکے ملک کے خلاف ٹیکنالوجی کے استعمال کو روکتے ہوئے قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹا جاسکے۔عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ حوثی باغیوں کو ’لازمی‘ دہشت گرد تنظیم قرار دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے امریکی اتحادیوں سے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، جو گروپ کے یمن اور اس کے باہر موجود شہریوں کے خلاف بے لگام مظالم کی عکاسی کرتا ہے‘۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حوثیوں کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا تھا تاہم جو بائیڈن انتظامیہ نے امدادی گروپ کی تشویش کے جواب میں اسے ختم کردیا تھا، یمن کے حالات پر اقوام متحدہ نے ایسے دنیا کا شدید انسانی بحران قرار دیا ہے۔تاہم، جوبائیڈن انتظامیہ نے حوثی گروپ کے مخصوص افراد پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔اقوام متحدہ کےمطابق 2014 سے شروع ہونے والی یمن جھڑپوں میں برائے راست اور بالواسطہ ہزاروں افراد قتل ہوچکے ہیں اور تصادم نے لاکھوں افراد کو قحط کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔