سری نگر// وادی کشمیر میں خشک موسم کے بیچ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے درج ہونے سے لوگ دوران شب ٹھٹھرتی سردیوں سے کانپ اٹھے۔وادی میں مشہور ترین سیاحتی مقامات پہلگام اور گلمرگ سردترین جگہیں رہیں جہاں کم سے کم درجہ حرارت بالترتیب منفی11.8 ڈگری سینٹی گریڈ اور منفی10.4 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ادھر محکمہ موسمیات کے ایک ترجمان کی پیش گوئی کے مطابق جموں و کشمیر میں 29 جنوری تک موسم مجموعی طور پر خشک رہنے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں 30 جنوری کو موسم ابر آلود رہ سکتا ہے جبکہ 31 دسمبر کو کہیں کہیں ہلکی برف باری یا بارشیں ہو سکتی ہیں۔وادی میں مطلع صاف رہنے سے شبانہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے درج ہوا ہے۔گرمائی دارلحکومت سری نگر میں کم سے کم درجہ حرارت منفی3.6 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جہاں گذشتہ شب کم سے کم درجہ حرارت 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔سری نگر میں 18 دسمبر کو رواں موسم کی سرد ترین رات درج ہوئی تھی جب کم سے کم درجہ حرارت منفی6.0 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔وادی کے مشہور دہر سیاحتی مقام گلمرگ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی10.4 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جہاں گذشتہ شب کا کم سے کم درجہ حرارت منفی10.0 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔فیصل احمد نے کہا کہ اس صنعت کے بیوپاری اچھی کمائی کر رہے ہیں لیکن دستکار جن کی محنت سے یہ چیزیں تیا رہوکر دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہیں غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہاَ : ’ہم جب صبح کے آٹھ بجےشال پر بیٹھ کر شام کے سات بجے اٹھتے ہیں تب زیادہ سے زیادہ تین سو روپیہ کما پاتے ہیں جبکہ ایک عام مزدور صبح کے نو بجے سے شام کے پانچ بجے تک ہی کا کرکے پانچ چھ سو روپیے کماتا ہے ایسے حالات میں کون اس پیشے کو اختیار کرے گا‘۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے پہل کانی شال سے وابستہ دستکاروں کو اچھی مزدوری دی جاتی تھی لیکن کچھ برسوں سے انہیں انتہائی کم معاوضہ دیا جا رہا ہے۔موصوف کانی شال دستکار نے کہا کہ باہر کے بازاروں میں لاکھوں روپیوں میں بھی کانی شال بیچا جا رہا ہے لیکن یہاں ایک دستکار کو سال بھر اپنے تمام تر فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بعد چالیس سے پچاس ہزار روپیے دئے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت بھی اس صنعت کی طرف کم ہی توجہ دے رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ برسوں میں پہلی بار ہماری دس دستکاروں پر مشتمل فرم کو حکومت نے مالی مدد کی ہے۔فیصل احمد نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس صنعت کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے موثر اقدام کرے۔انہوں نے اہلیان کشمیر سے بھی اپیل کی کہ وہ اس صنعت کے فروغ اور بقا کے لئے اپنا اپنا رول ادا کریں کیونکہ اس کا زوال ایک پیشے کا نہیں بلکہ ثقافت کے ایک اہم پہلو کا زوال ہے۔