سری نگر//فوج کی 15ویں کورکے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے منگل کے روز ’’جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کوپاکستان کی اپنی مجبوریوں سے مشروط‘‘قراردیتے ہوئے خبردارکیاکہ ہمیں یہ دیکھناہوگاکہ ہمسیایہ ملک کا آنے والے وقت میںمقصد اور ارادہ کیا ہے؟۔ فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ برسوں پرانی جنگ بندی برقرار ہے اور ہندوستانی فوج چاہے گی کہ اسے ایل ائوسی کے دونوں طرف کے عام لوگوں کے فائدے کیلئے جاری رکھا جائے لیکن وہ فوج چوکس ہے کیونکہ دشمن بہت مکار ہے۔ سری نگرمیں ایک تقریب کے موقعہ پرصحافیوں سے بات کرتے ہوئے فوج کی 15 ایںکور یا چنار کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی)، لیفٹیننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کہا کہ جب کہ پاکستان ان’مجبوریوں‘کو برقرار رکھے ہوئے ہے جن کی وجہ سے اُس نے گزشتہ سال فروری میں جنگ بندی کے معاہدے کا اعادہ کیا تھا،ہمیں دیکھناہوگا کہ آنے والے وقت میں اس کا مقصد اور ارادہ کیا ہے۔لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کشمیر کے نوجوانوں پر تشدد کا راستہ ترک کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ ملک میں ان عناصر سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جو اُنہیں اکسارہے ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں کے خلاف بھی خبردار کیا جو بیرون ملک اچھی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ملک میں نوجوانوں کو بنیاد پرست بنا رہے ہیں اور ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔فوج کی 15ویں کورکے سربراہ کاکہناتھاکہ ہم ایک ایسے دشمن سے نمٹ رہے ہیں جو پہلے اپنی دیکھ بھال کرتا ہے۔ چنانچہ وہ مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے وہ اس چیز (جنگ بندی) کے لئے آمادہ ہوا، وہ ان مجبوریوں کو تھامے ہوئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ میں اسے ہماری طرف اور دوسری طرف کشمیر کے لوگوں کے لئے دیکھتا ہوں، دونوں کو فائدہ ہوا ہے۔لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کہا کہ فوج صرف کشمیر کے لوگوں کے فائدے کیلئے جنگ بندی کو جاری رکھنا چاہے گی تاکہ تجارت، کھیتی باڑی، کاروبار اور تعلیم کے لئے آزادانہ نقل و حرکت ہو۔ انہوں نے کہاکہ تاکہ وہ (دونوں طرف کے کشمیر کے لوگ) ایک عام شہری کی زندگی گزار سکیں جب تک امن قائم رہے۔ یہی وہ بڑا فائدہ ہے جو ان کو پہنچا ہے۔چنار کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے کہا کہ جب جنگ بندی ہو رہی تھی، فوج بہت احتیاط سے چوکیدار تھی کیونکہ دشمن بہت مکار ہے۔انہوںنے خبردارکیاکہ پاکستان جنگ بندی کی آڑمیںملک دشمن عناصر، دہشت گردوں کو سامنے آنے کے لئے اُکساتا رہے گا۔ اس لئے، جب کہ ابھی تک، جنگ بندی ہو رہی ہے، ہمیں ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ آنے والے وقت میں اس کا مقصد اور ارادہ کیا ہے۔یوم جمہوریہ کی تقریبات کے موقع پر صورتحال کو ’بالکل ٹھیک‘قرار دیتے ہوئے، فوجی اہلکار نے کہا کہ کشمیر بھر میں لوگوں کی طرف سے قومی پرچم کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ کشمیر کے لوگوں کے مزاج کا ایک بڑا اشارہ ہے۔ یہ ایک مثبت چیز ہے،میرے خیال میں آگے بہت اچھا وقت ہے۔فوج کی 15ویں کورکے سربراہ نے کہاکہ صرف یہ ہے کہ عوام اس گٹھ جوڑ کے خلاف ہوشیار رہیں جو ان کے ذہنوں کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان کی بات نہ سنیں جس شکل میں بھی وہ ایسی کسی بھی سرگرمی کو ہوا دینے کی کوشش کریں جو ملک دشمن اور کشمیر کے عوام دشمن ہو۔لیفٹیننٹ جنرل پانڈے نے ہتھیار اٹھانے والے نوجوانوں سے کہا کہ وہ غلط راستہ چھوڑ دیں۔انہوںنے کہاکہ وقت بدل گیا ہے، راستہ بدل گیا ہے، لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں، اور بامقصد زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ آپ کی عمر یہ سمجھنے کی ٹھیک نہیں ہے کہ آپ نے بندوق کیوں اٹھائی۔لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے مقامی جنگجوئوں سے مخاطب ہوکرکہاکہ جب آپ24،25 سال کی عمر کو پہنچ جائیں گے تو سمجھیں گے کہ یہ راستہ غلط ہے، لہٰذا اپنی زندگی کی طرف لوٹ آؤ، ورنہ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی ہے اور جسے بندوق اٹھانے کا اختیار ہو گا، وہ لے جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص، جسے اختیار نہیں ہے، بندوق اٹھائے گا، یا تو اسے پکڑ لیا جائے گا یا آپ جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ایل او سی کے پار سے مسلسل اشتعال انگیزی کا حوالہ دیتے ہوئے، جی او سی چنار کور نے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ ہندوستان کے مفاد پرست عناصر اس سے کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ان لوگوں کو سب کچھ مل گیا ہے، لیکن وہ ہمارے نوجوانوں کو بھڑکا رہے ہیں، ہمارا دشمن اس وقت تک ہمارا فائدہ نہیں اٹھا سکتا جب تک ہمارے اپنے گھروں میں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ لہذا، ہمیں اس پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کہاکہ اس کے علاوہ، ہمارے نوجوانوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے تارکین وطن، غیر ممالک میں، اپنے لیپ ٹاپ، موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے بنیاد پرستی کا نظام چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ لوگوں سے پیسے لے رہے ہیں، اچھی جگہوں پر رہ رہے ہیں اور یہاں کے لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو ایسے لوگوں سے خود کو بچانا ہوگا۔