صنعاء//یمن کی حوثی ملیشیا کے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظبی پر ڈرون حملے کے ایک روز بعد ایران کی وزارت خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے’’یمن سے منسلک حالیہ پیش رفت‘‘ قراردیا ہے اور کہا ہے کہ فوجی حملے یمن میں جاری بحران کا حل نہیں۔ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایرنا کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے نیوزبریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’فوجی حملے یمن کے بحران کا حل نہیں اور اس طرح کے اقدامات سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا‘‘۔انھوں نے کہا کہ ’’ایران نے ہمیشہ اس بات پرزوردیا ہے کہ کسی بھی علاقائی بحران کا حل جنگ اور تشدد کے ذریعے تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے اور صرف پرسکون ماحول میں اور کشیدگی اور تشدد کے تسلسل سے دوررہ کرہی خطے میں امن اور استحکام پیدا ہوسکتا ہے‘‘۔خطیب زادہ نے براہ راست متحدہ عرب امارات پر حوثیوں کے حملے کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ابوظبی میں پیر کے روز ڈرون حملوں کے نتیجے میں دومقامات پر آگ بھڑک اٹھی تھی اور آتش زدگی کے بعد پیٹرولیم کے تین ٹینکروں میں دھماکے ہوئے تھے۔اس واقعے میں ایک پاکستانی سمیت تین افراد ہلاک اورچھے زخمی ہوگئے تھے۔ایران طویل عرصے سے یمن میں قانونی حکومت کے خلاف برسرجنگ حوثی ملیشیا کومالی اور فوجی امداد مہیا کررہا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا ایران نے یواے ای پر اس ڈرون حملے کی منظوری دی تھی یا یہ مکمل طور پرحوثیوں کااپنا فیصلہ تھا۔بروکنگزانسٹی ٹیوشن کے مرکز برائے مشرقِ اوسط پالیسی میں خارجہ پالیسی کے سینئرفیلو ڈینیل بائیمین نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایران اکثریہ دکھلاوا کرتا ہے کہ وہ حوثیوں کے ساتھ مل کرکام نہیں کررہا ہے۔وہ شاید متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو پیچیدہ بنانے سے گریزچاہتا ہے جبکہ ساتھ ہی اس بات کویقینی بنانا چاہتا ہے کہ اس کے مقامی آلہ کار موثرطریقے سے کام کرسکیں‘‘۔دوسری جانب چیتھم ہاؤس میں مشرق اوسط ،شمالی افریقا کے پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر صنم وکیل نے العربیہ انگلش کو بتایا:’’ان واقعات سے بلاشبہ خلیج بھر میں تعلقات میں تناؤمیں اضافہ ہوگا۔لیکن اس سے یہ بھی ظاہرہوسکتا ہے کہ حوثیوں کیحملوں کو کم کرنے میں ایران کا اثرمحدود ہے‘‘۔